Saturday, April 6, 2024

Aging - how to stay healthy?

 When you are approaching old age, the most important thing is to get enough sleep. You should get enough sleep according to your age. Number two, there are many types of exercise. Among them, whichever one you feel comfortable with, start exercising and walking is the most important thing. Eat very little in feasts and eat in such a way that it becomes easier for you to digest.

Another important thing is to speak the truth. This will not increase your mental pressure. There is no need to remember; that the liar is always worried, so tell the truth as much as possible. You are middle-aged. Treat children with kindness and love. If you are friends with friends younger than you, then friendship with younger friends will make you feel younger and younger than with older friends, while friendship with older people will make you feel younger. will make you old.

Tuesday, October 3, 2023

Reasons for increase in air pollution in Karachi



Karachi is a city in Pakistan where there are many problems in which air pollution is a part of it. What matters most is the social awareness that may intensify in the coming time and the required social awareness is not able to cope with the garbage on the streets in the slums and in the drains in Karachi. There is a culture of throwing, besides pan-gutka eaters also use the roads as Ugandans. 

The situation has become alarming because the severe lack of trees in Karachi is making the weather more severe and heat is also felt in Karachi. What are the measures that are necessary to enable number one to keep drums for garbage on the streets of Karachi these are three types number one dry waste number two wet waste and number three sand for paan and gutka. 

Karachi's air pollution is continuously increasing and this pollution is due to sand or dust on the roads.

Overall, the situation has become such that various diseases have started spreading due to sand or dust.

In Karachi, modern methods of waste management and removal are the need of the hour and here we can also benefit from the experiences of the developed world. is not thrown away and their public consciousness also works in a wonderful way. Unfortunately, there is a culture of throwing garbage on the streets in Pakistan, which creates a huge problem of cleanliness. Nowhere in the world are the streets swept but watered. goes and cleans the road by pouring water or washing the road. In Pakistan and underdeveloped countries like Pakistan, there is a tendency to sweep the roads and this need arises because there is garbage on the roads. For this reason, there is also sand on the roads, which keeps flying, it keeps spreading various diseases. One of the main reasons for the increase in diseases is that the dust that is flying has become extremely deadly due to pan and ghukta and the people. It has also become a threat to the way this article is being written to draw attention.

Industrial smoke and vehicular smoke are also making the situation worse resulting in many problems with respiratory diseases being the most important which is a common problem in Karachi and as many GP doctors are sitting there. There are more patients with the same disease, if this religion is addressed in the right way by understanding the basic nature, then the number of sick people will decrease rapidly, and it will also create a healthy atmosphere in the city.


 

Thursday, March 23, 2023

Tariq Aziz Show (Bait Bazi Competition) as History

طارق عزیز شو میں منعقد کردہ بیت بازی کے مقابلے کی ایک کلیکشن پیش خدمت ہے یہ نایاب انتخاب آپ کو ماضی کی حسین یادوں کی طرف لے جائے گا اور آپ میں سے بہت سے لوگوں کو بچپن کے دن یاد آ جائیں گے طارق عزیز طویل عرصہ پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے اور مختلف پروگرام پیش کرتے رہے طارق عزیز شو ابتدا میں نیلام گھر کہلاتا تھا جسے بعد میں طارق عزیز شو کا نام بطوراعزاز دیا گیا پاکستان ٹیلی ویژن پر پیش کیے جانے والے پروگراموں میں نیلام گھریا طارق عزیز شو کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے اور یہ پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ کا ایک حصہ بھی ہے ماضی کی حسین یادوں کو تازہ کرے گا اور گزرے ہوئے وقت میں آپ کھو جائیں گے اور بہت کچھ آپ کو یاد آئے گا آپ کی یاداشت آپ کو تروتازہ کر دے گی اور آپ بہت بہتر محسوس کریں گے - پاکستان میں ٹیلی ویژن کا تصور 1956 میں سامنے آیا اور پہلی بار اس منصوبے کے لیےغور کیا گیا- سرکاری سطح پر ہونےوالا یہ غور 1960 میں عملی شکل میں سامنے آیا اس وقت کے صدر ایوب خان نے منظوری دی اور اس طرح سے پاکستان ٹیلی وژن کے قیام کے لئے ابتدائی کام شروع ہونے کے سرکاری سطح کے اقدامات نظر آتے ہیں ١٩٦١ اور اور ١٩٦٢ میں ٹیلی ویژن کے لیے ابتدائی کام ہوا اور لاہور میں اس کا ہیڈ کوارٹر بنایا گیا اس ضمن میں جاپان اور برطانیہ کےاداروں تکنیکی مدد حاصل کی گئی اور ابتدائی کام سر انجام دیا گیا نومبر١٩٦٤میں پہلی بار نشریات کا آغاز ہوا اور یہ نشریات بلیک اینڈ وائٹ تھیں کیونکہ اس زمانے میں رنگین نشریات ترقی یافتہ ممالک میں ہی ہوتی تھی اور پسماندہ ممالک میں میں ٹیلی ویژن سادہ اور بلیک اینڈ وائٹ ہی تھا ابتدا میں ٹیلی ویژن خبروں سے وابستہ اور واقعات کے سلسلے میں کام کیا کرتا تھا رفتہ رفتہ اس سے بچوں کے پروگرام اور ڈرامے پیش کرنے کا آغاز ہوا جسکو عوام الناس کی طرف سے بھرپور پذیرائی ملی اور پھر ایک ایسا تاثر پیدا ہوا کہ ٹیلی ویژن ڈراموں کے لئے ہی ہے جبکہ اس کی ابتدائی شکل اوراس کا ابتدائی تصور خبروں کو پیش کرنے کے حوالے سے تھا 26 نومبر 1967 کو اس وقت کے صدر ایوب خان نے لاہور میں پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات کے آغاز کا باقاعدہ افتتاح کیا جو ریڈیو پاکستان لاہور میں ایک پرانے سے روم میں قائم کیا گیا تھا اور کچھ حصے پرخیمہ بھی بنایا گیا تھا اس زمانے میں ٹیلی ویژن کو اتنی زیادہ اہمیت حاصل نہیں تھی اور ریڈیو پاکستان کو اس سے زیادہ اہمیت حاصل تھی اور وہ ایک مضبوط اور ترقی یافتہ ادارہ تھا اور معاشرے میں اس کی اہمیت بھی بہت زیادہ تھی اسکو بہت زیادہ سنا بھی جاتا تھا پاکستان ٹیلی ویژن پرائیوٹ تھا اور باقاعدہ سرکاری سطح اس کو 1971 میں ملی اس کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن سے جو پروگرام شروع کیے گئےان میں سرفہرست موسیقی کے پروگرام اور بچوں کے پروگرام شامل ہیں خبر نامہ پاکستان ٹیلی ویژن کا ایک اہم پروگرام ہوا کرتا تھا اور لوگ باقاعدہ اس کے لئے انتظار کرتے تھے کوئی خاص خبر بلیٹن کی صورت میں بھی سامنے آتی تھی جو اہمیت کی حامل ہوتی تھی پاکستان ٹیلی ویژن 24 گھنٹے بھی نہیں چلتا تھا اور مخصوص اوقات کار تھے اور جلد ہی بند ہو جاتا تھا اور عوام اس کی نشریات سے محروم ہوجاتے تھے انیس سو اسی اور انیس سو نوے کی دھائی میں پاکستان ٹیلی ویژن ڈرامے کے عروج کی تاریخ ہے جب اس سے بہترین ڈرامے پیش کیے گئے ا

VIDEO WATCH HERE

Saturday, March 18, 2023

International Day for the Abolition of Slavery























 

آج کی جدید غلامی

ہر سال 2 دسمبر کو عالمی سطح پر غلامی سے نجات کا دن منایا جاتا ہے پاکستان سمیت دنیا بھر میں غلامی سے نجات کا عالمی دن منانے کا مقصد غلامی کا مکمل اور ہر سطح پر خاتمہ کرنا ہے یہ دن غلامی کا پس منظر اور غلامی کے خاتمے کے لئے لیے کی جانے والی جدوجہد کی یاد کو بھی تازہ کرتا ہے اس موقع پر کانفرنسز کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے سیمینار ہوتے ہیں غلامی کے خاتمے کے لیے نئے خیالات و تصورات بھی پیش کیے جاتے ہیں یہ ان لوگوں میں آزادی کا شعور پیدا کرتا ہے جو اس کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں دنیا بھر سے غلامی رفتہ رفتہ ختم ہوتی جارہی ہے جبکہ اس کی باقیات آج بھی موجود ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں آج کے جدید انسان کو متاثر کیے ہوئے ہیں ہیں غلامی سے نجات کا عالمی دن پہلی بار انیس سو اٹھاسی میں منایا گیا اور اس کے بعد یہ ہر سال منایا جاتا ہے ہر سال 2 دسمبر کو غلامی کی جدید شکلوں پر بات کی جاتی ہے اور آج کے موجودہ معاشرتی حالات میں غلامی کی جو مختلف اشکال ہمیں نظر آتی ہیں جو ترقی پذیر ممالک میں بھی ہیں اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہیں اور آج کے انسان کو متاثر کیے ہیں ان کے لیے عملی جدوجہد اور اقدامات کی سفارشات بھی عمل میں لائی جاتی ہے غلامی ایک ایسا تصور ہے جسکو تاریخی تناظر میں معاشرتی تحفظ حاصل رہا ہے اور اس کے خلاف اقدامات تاخیر سے اٹھائے گئے غلامی نے صدیوں انسان کو محکوم رکھا اور آزادی کا لطف اٹھانے سے محروم رکھا آج کا دن انسانوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ اس تصور کے خلاف آواز بلند کریں اور دنیا کو پائیدار انسانیت کی جانب لے جائیں غلامی کے تصور کو سمجھنے کے لئے ہمیں تاریخ کے تناظر میں اس کو سمجھنا ہوگا غلامی کی تاریخ کو بھی سمجھنا ہوگا انسان مختلف قبائل میں تقسیم ہو کر اس دنیا میں رہ رہا تھا ریاست کا تصورکمزور تھا طاقتور حملہ کرکے کمزور قبیلے کے افراد کو قتل کردیتے تھے اور مضبوط مردوں کو پیغام دیا جاتا تھا کہ تم زندگی کی قیمت پر اب غلامی کرو اس طرح دنیا بھر میں غلاموں کی ایک بڑی تعداد پیدا ہوئی تاریخی تصور میں غلاموں سے بھرپور کام لیا جاتا تھا عورتوں اور بچوں کا بھی بھرپور استعمال کیا جاتا تھا اور ان سے جبری مشقت لی جاتی تھی غلاموں کی حیثیت معاشرے میں کچھ بھی نہ تھی اورانکو ایک ملکیت سمجھا جاتا تھا تھا اور ان کو بیچا اور خریدا جا سکتا تھا غلام پر تشدد نہ صرف جائز سمجھا جاتا تھا بلکہ اسے معاشرتی تحفظ بھی حاصل تھا زراعت کا آغاز ہوا اور ریاست کی ابتدائی تشکیل کے بعد غلامی کے تصور میں بھی کچھ تبدیلی آئی اور غلامی بذریعہ قانون کا ایک نیا تصور سامنےآیا زراعت آج کے مقابلے میں غیر ترقی یافتہ حالت میں تھی اور اس کے لیے سخت جسمانی محنت کی ضرورت تھی اس ضرورت نے غلامی کو دوام بخشا طاقتور طبقات کسی نہ کسی شکل میں غلامی کو زندہ رکھنے کے لئے کمر بستہ تھے ایسے معاشرتی حالات شکیل دیئے گئے جو غلامی کے لئے قابل قبول سمجھے جائیں بادشاہ بطور تحفہ غلاموں کو دیا کرتے تھے ان میں مرد و عورت کی کوئی تمیز موجود نہیں تھی اور خوبصورت عورت بطورتحفہ ایک اچھا تاثر بھی موجود تھا عہدیدارریاست بھی یہی رویہ رکھتے تھے غلامی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی اور اس کے خاتمے کے لیے عملی طور پر اقدامات نہ ہو سکے غلامی کا خاتمہ غلاموں کی ضرورت تھی اور غلام آواز بلند کرنے پر قتل کر دیے جاتے تھے غلامی سے نجات کی تحریک کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی اور اس کے خاتمے کے لیے تصورات و خیالات پیش کیے گئے اس کے لیے تصورات و خیالات غلاموں نے ہی پیش کیے جن کی غالب اکثریت کو قتل کر دیا گیا غلامی کے خاتمے کے لیے آواز بلند کرنا ایک جرم تھا اور غلام کا یہ جرم قتل کا موجب تھا غلام کو یہ حق نہیں دیا گیا تھا کہ وہ آواز بلند کر سکے اور اپنے حقوق معاشرے سے مانگے غلاموں نے ابتدا میں حق بطور غلام مانگا اور نہ ملنے پر غلامی کے خلاف تحریک کا آغاز کیا غلاموں کے لئے نظریات ،خیالات ،تصورات پیش کرنے والوں کو حکمران طبقے کی طرف سے انتہائی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے خلاف شدید قسم کا رد عمل بھی آیا جو خیالات تصورات پیش کیے گئے انہوں نے آگے چل کر غلامی پر کاری ضرب لگائی غلام طبقہ انصاف سے محروم تھا اور انصاف بطور حق نہ ملنے پر ان کے اندر بے چینی بڑھتی چلی گئی اور جوغلامی کے خلاف نظریات سامنے تھےان نظریات و خیالات نے حکومتی نظام تبدیل کیا اور جدید جمہوریت تک حالات کو لے گئے ظہور اسلام کے بعد غلامی پر کاری ضرب لگی اور غلاموں سے اچھا سلوک کرنے کی ہدایت دی گئی اور اس کے زیر اثر غلامی کی اشکال کے بتدریج خاتمے کا آغاز ہوا اسلام دنیا بھر میں جدید ترین مذہب ہےغلامی کے خاتمے میں اسلام کا ایک اہم کردار رہا ہے جو اس نے بطور مذهب ادا کیا اسلامی تعلیمات کے زیر اثر مسلم ریاست میں غلاموں کو حقوق حاصل رہے اور بتدریج آزادی ملی غلامی کی خاتمے میں جہاں معاشرتی حالات اور واقعات موجود رہے ہیں وہیں غلاموں کا بھی ایک اہم کردار رہا جنہوں نے اپنے حالات میں تبدیلی پیدا کی اور عملی جدوجہد میں حصہ لیا دنیا میں آج کچھ ملک ترقی یافتہ کا اور کچھ ممالک پسماندہ ہیں جہاں غلامی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے غلامی ترقی یافتہ اور پسماندہ دونوں ملکوں میں نظر آتی ہے آج کے جدید حالات میں غلامی نے اشکال تبدیل کر دی ہیں اور وہ ماڈرن یا جدید شکل میں نظر آتی ہے اب وقت آگیا ہے کہ غلامی کے جدید نظام میں اس کے خاتمے کے لیے کوشش کی جائے اور معاشرتی اخلاقیات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے معاشرتی اخلاقیات ہر دور میں غلامی کو تقویت دیتے رہے اور آج بھی یہ اخلاقیات جدید شکل میں اور تصور میں موجود ہیں اور آج کے دور میں طاقتور اور طاقتور طبقےکو یہ نظریات و خیالات تقویت دیتے نظر آتے ہیں جو کہ ایک المیہ ہے طاقتور طبقہ ہر طرح کے وسائل اور اپنی طاقت کا ہر سطح پر استعمال کرتا نظر آتا ہے اور جدید غلام ہر لحاظ سے پسماندگی کی عملی شکل میں ہمیں نظر آتا ہے




Thursday, March 16, 2023

Allama Iqbal

 


شاعر مشرق علامہ اقبال کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور وہ سیالکوٹ میں 9 نومبر نمبر١٨٧٧ کو پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ پنجاب سے حاصل کی والد کا نام شیخ نور محمد اور والدہ کا نام امام بی بی تھا علامہ اقبال اپنی والدہ محترمہ سے بے حد محبت کرتے تھے جن کا انتقال 9 نومبر 1914 کو ہوا اس بات نے ان کو بہت غمزدہ کردیا اور انہوں نے والدہ کی شان میں نظموں کے ذریعے اپنی محبت کا اظہار کیا یہ شاعری وانداز شاعری میں ان کے ذوق کا اظہار بھی ہے اور ان کے جذبات عوام کے سامنے لاتا ہے جس میں وہ اپنی ماں سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں علامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد پیشے کے لحاظ سے سے درزی تھے اور ایک پکے اور سچے مسلمان تھے جو سخت مذہبی خیالات رکھتے ہیں ان کے والد کی شخصیت کا اثر خود علامہ اقبال پر بھی ہمیں نظر آتا ہے اور ان کے افکار و نظریات پر بھی نظر آتا ہے جو ان کی شاعری سے جھلکتا ہے علامہ اقبال اسکاچ مشن کالج سیالکوٹ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور چلے گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کیا اور وہ لاہور میں رہنے لگے اسی دوران ان کو برطانوی کالج سے اسکالرشپ حاصل ہوئی اور وہ برطانیہ روانہ ہو گئے علامہ اقبال کی پہلی شادی 18 سال کی عمر میں ہوئی جو طبیب خان بہادر خان کی بیٹی سے ہوئی جن سے ان کا بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئی چند ہی سالوں میں ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی علامہ اقبال نے پنجاب یونیورسٹی سے فلسفہ میں پہلی پوزیشن کے ساتھ ایم اے کیا اور گورنمنٹ کالج جہاں وہ خود پڑھتے رہے وہاں بطور جونیئر پروفیسر پڑھانا شروع کیا علامہ اقبال نے دسمبر 2014 میں مختار بی بی سے دوسری شادی کی ان کا ایک بیٹا پیدا ہوا لیکن پیدائش کے موقع پر بیٹا اور بیوی انتقال کر گئے اس کے بعد انہوں نے سردار بی بی سے شادی کی جن سے پاکستان کی نامور شخصیت جاوید اقبال نے جنم لیا اور پاکستان میں انہیں علامہ اقبال کے بیٹے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے علامہ اقبال 1905 میں یورپ روانہ ہوئے ان کو ٹرینٹی کالج کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے سکالر شپ آفر کی گئی تھی جہاں سے انہوں نے اسکالر شپ کے تحت بیچلر آف آرٹس کیا وہ پی ایچ ڈی کے لیے جرمنی روانہ ہوئے اور 1908 میں فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور تصنیفی کام شروع کر دیا اسی دوران انہوں نے عالمی مصنفین کو پڑھنا شروع کیا اور تنقید بھی شروع کی وہ جس سے متاثر ہوئے ان میں گوئٹے قابل ذکر ہیں علامہ اقبال کی شناخت بطور ایک فلسفی سامنے آنے لگی اور ایک پہچان بنتی چلی گئی وہ لاہور واپس آئے اور گورنمنٹ کالج میں فلسفہ کے پروفیسر کی حیثیت سے پڑھانا شروع کیا علامہ اقبال فارسی اور عربی میں مہارت رکھتے تھے علامہ اقبال نے برطانیہ میں قیام کے دوران قانون کی تعلیم بھی حاصل کی تھی علامہ اقبال نے لاہورمیں وکالت شروع کر دی قانون کی تعلیم انہوں نے برطانیہ میں حاصل کی تھی چیف کورٹ کوٹ لاہور میں بطور فوجداری اور دیوانی وکیل پیش ہونے لگے جہاں تقریباً ایک سو کیس میں بطور وکیل پیش ہوکر اپنی صلاحیت کا اظہار کیا . اپنے فلسفیانہ کاموں اور تحریک پاکستان کی طرف توجہ تھی اور وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے پنجاب کے صدر بھی تھے - انہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا اور لیکچر دینے شروع کئے علامہ اقبال مولانا رومی سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں اور ان کے سیاسی افکار اور شاعری میں مولانا رومی کا رنگ موجود ہے امت کا تصور، پاکستان کا تصور ان کی جانب سے پیش کیا گیا جسے آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنایا اور پاکستان کے لیے جدوجہد شروع کی - تحریک پاکستان کو نظریاتی بنیادیں دینے میں علامہ اقبال کا سب سے اہم کردار نظر آتا ہے جنہوں نے تصور پاکستان پیش کیا لیکن وہ تعبیر نہ دیکھ سکے اور قیام پاکستان سے نو سال پہلے وہ انتقال کر گئے انہوں نے وکالت کے پیچھے کو نظر انداز کیا اور تنظیمی کام اور علمی و فکری کام پر توجہ مرکوز کی اقبال اسلامی تہذیب کے دائی تھے تھے اور ان کی تمام شاعری اسلامی تہذیب کے فروغ کو عمدہ انداز میں پیش کرنے کے لئے اہمیت رکهتی ہے انہوں نے ایک واضح بھرپور تصور دیا جو اپنی جاذبیت میں نہ صرف منفرد ہے بلکہ اس میں زمانے کا کوئی اثر نظر نہیں آتا اور آئندہ آنے والے وقت میں بھی یہ کارگر اور رہنمائی کے لیے موجود ہے اسلامی فکر کی تعمیر نو ان کا خاص موضوع ہے اور ان کے بے شمار للیکچر اس موضوع پر ملتے ہیں یہ لیکچرز مختلف اوقات میں مختلف جگہوں پر دیے گئے اور شایع بھی ہوۓ - انیس سو ستائیس میں وہ پنجاب قانون ساز کونسل کے ممبر بنے ان کا مقبرہ لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں حضوری باغ میں ہے جہاں حکومت کی جانب سے گارڈز تعینات کیے جاتے ہیں - قائد اعظم محمد علی جناح سے ان کا تعلق زندگی کی آخری سانسوں تک قائم رہا اور وہ ان کی انتہائی قدر کیا کرتے تھے علامہ اقبال کے ہی کہنے پر وہ برطانیہ سے مسلمانوں کی قیادت کرنے کے لیے ہندوستان آئے تھے علامہ اقبال کی تصانیف کے علاوہ ان کے لیکچر بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں جو دو قومی نظریہ کے فروغ کے لیے دیے گئے- ان کے یہ لیکچر شائع بھی ہوۓ خاص طور پر ان کے انگریزی کے لیکچر بہت اہمیت کے حامل ہیں ہیں وہ انگریزی عربی اور فارسی کے علاوہ اردو میں دسترس رکھتے تھے اور ان کا بہترین کام فارسی میں نظر آتا ہے علامہ اقبال کے خیالات ، تصورات ، افکار اور نظریات ان کی شاعری میں ملتے ہیں علامہ اقبال کی شاعری دراصل پیغام ہے اور پیغام کی صورت میں شاعری کی گئی ہے یہ انداز کہیں اور نظر نہیں آتا - ان کی شاعری میں ان کے سفر کے ااثرات بھی نظر آتے ہیں جو یورپ اور افغانستان کے تھے Watch now

Aging - how to stay healthy?

 When you are approaching old age, the most important thing is to get enough sleep. You should get enough sleep according to your age. Numbe...